کبھی پرچم میں لپٹے ہیں | از حبیبہ اشفاق | قسط نمبر_41 آخری قسط |

 
Kabhi Parcham Min Lapatay hen

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں

از حبیبہ اشفاق

قسط نمبر_41

آخری قسط

کبھی پرچم میں لپیٹے ہیں کا آخری باب! قسط نمبر 41 میں کہانی کا جذباتی اختتام دیکھیں، جہاں راز اور جذبات کا طوفان منتظر ہے۔

**کچھ سالوں بعد**

 سی ایم ایچ ہاسپٹل کے کاریڈور میں وہ جلدی جلدی آگے بڑھ رہی تھی ۔ گورا رنگ ، ستواں ناک ، نازخ پنکھڑی کی مانند سرخ ہونٹ ، چمکتی ہوئی سبز آنکھیں ، ان پہ سایہ فگن لمبی خمدار پلکیں جو اسکی آنکھوں کو حسین سے حسین تو ببا رہی تھیں۔خاکی رنگ کی ساڑھی پہنے ،کندھے پہ تین سٹارز جو کہ اسکے کیپٹین ہونے کی نشاندہی کر رہے تھے ، سر پہ خاکی رنگ کا ہی سقارف ، سینے پہ اسکی نیم پلیٹ، ہاتھ میں سٹھیتوسکوپ پکڑے، گورے پیروں کو ہیل میں قید کئیے وہ چل رہی تھی۔اسکا ایٹیٹیوڈ ، اسکی چال اور اس چال سے ڈھلکتا وقار اور سب ست منفرد بنا رہا تھا ۔۔!!


"اس پیشنٹ کی فل رپورٹ ہر حال میں کل صبح تک میری ٹیبل پہ ہونی چاہیے" اسنے اپنے ساتھ چلتی ہوئی نرس کو سنجیدگی سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتی دوسرے کوریڈور کی طرف مڑ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ جتنی زیادہ سوفٹ تھی کام کے معاملے میں اتنی ہی سخت تھی ۔۔!!


وہ تیزی سے چلتی اپنے آفس کی جانب آئی ۔دروازہ کھول کے وہ اپنے دھیان اندر داخل ہوئی جب سامنے کرسی پہ بیٹھے سخض کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چمکی۔اس شخض کی اسکی جانب پشت تھی لیکن وہ پھر بھی اسے پہچان گئی تھی ۔۔!!


اسکی موجودگی کو شاید مقابل نے بھی محسوس کر لیا تھا جبھی تیزی سے کھڑا ہوا اور مڑ کے اسے دیکھا ۔ڈارک بلیو پینٹ ، نیوی بلیو شرٹ وہ اس ٹائم  فل ائیر فورس کے یونیفارم میں ملبوس تھا ھس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ سیدھا ادھر ہی آیا تھا ۔چہرے پہ ہلکی ہلکی بئیرڈ اور اس پہ سجی مسکان -۔۔!!


" واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز عمر! آپ یہاں " وہ دوڑنے کے سے انداز میں اس تک پہنچی اور ہمیشہ کی طرح اسکے گلے میں بازو ڈال کے اسکے گال پہ پیار کیا تو وہ ہنس دیا۔۔!!


ہاں وہ ایسی ہی تو تھی ۔بہت ایکسپریسو۔ بولڈ۔بہادر۔کسی سے نا ڈرنے والی ۔۔!!


" لڑکی کتنی دفعہ منع کیا ہے ۔جگہ تو دیکھ لیا کرو۔اگر کسی نے دیکھ لیا تو" اسنے بھی ہمیشہ کی طرح اسے خود سے الگ کر کے سنجیدگی سے کہا لیکن اسکی اس بات پہ مقابل ہستی کا منہ بنا تھا۔۔!!


" اور میں نے بھی آپکو کتنی دفعہ کہا ہے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتی ۔جو دیکھتا ہے دیکھے۔آئی ڈیم کئیر۔شوہر ہیں آپ میرے ،کوئی غیر تو نہیں ہیں" وہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑا کے خفگی سے بولتی ٹیبل کی دوسری جانب بڑھ گئی ۔۔!!


"اوکے فائن! یہ لڑائی ہم کسی اور وقت کے لئیے اٹھا رکھتے ہیں ۔آپ یہ بتاو ڈیوٹی ٹائمنگ کب تک ہے؟ میں سیدھا یہیں پہ آیا ہوں سوچا آپکو بھی ساتھ لے کے چلتا چلوں"اسنے مصلحت آمیز لہجے میں کہا تو وہ جو جھک کے ٹیبل ڈرار سے کچھ ڈھونڈ رہی تھی اسکی جانب دیکھنے لگی ۔۔!!


" بس پانچ منٹ تک چلتے ہیں۔آپ بیٹھ جائیں اور یہ بتائیں مائر بھائی بھی آپ کے ساتھ آئیں ہیں یا نہیں؟" اسنے کلائی میں باندھی اپنی گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر اسے چئیر پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔!!


"یار مائر کا فلائنگ مشن تھا - کہہ رہا تھا کہ رات تک پہنچ جائے گا"  وہ بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا سنجیدگی سے بولا اور پھر کرسی پہ بیٹھ گیا۔۔!!


"ہمم عمر ویسے مائز بھائی کتنے سٹرکٹ ہیں نا ۔مجھے تو امل کی ٹینشن ہو رہی ہے جتنی ذیادہ وہ ڈرپوک ہے آپ لوگوں نے اتنا ہی کھڑوس انسان اسکے پکے باندھا ہے" وہ اپنا سقارف صحیح کرتی ہوئی منہ بنا کے بولی ۔اسکے اس انداز پہ عمر کے چہرے پہ بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی ۔۔!!


"وردہ میڈم وہ کھڑوس نہیں بلکہ بہت سوفٹ نیچر کا مالک ہے ۔یہ تو آپ بھی جانتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سے کتنا ریزروڈ رہا ہے ۔ماما اور بابا کے اتنے پیار کے باوجود بھی وہ کہیں نا کہیں سائم چاچو اور ثناء چچی کو مس کرتا ہے ۔مخض دو دن کا تھا جب ثناء چچی کی ڈیتھ ہوئی ۔اور اس بات کا اندازہ تو آپکو بھی ہو گا کہ کوئی پیرنٹس کا مقابلہ نہیں کر سکتا " 


" ہمم یہ بات بھی آپکی ٹھیک ہے"  اسنے سمجھ کے سر ہلایا۔۔!!


 "اوکے میڈم ! اب چلیں؟ کل کے فنکشنز کی تیاریاں بھی ہمیں ہی کرنی ہیں" اسنے کھڑے ہو کے ٹیبل پہ رکھی کیپ سر پہ پہنی اور اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھایا ۔اسنے مسکرا کے  ہاتھ تھاما اور اسکے ہمقدم ہو لی۔۔۔!!


♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡


اسنے گاڑی پورچ میں روکی ڈارک براون چمکتی آنکھیں، ستواں ناک، عنابی لب جو آپس میں بھینچے ہوئے تھے، چہرے پہ ہلکی ہلکی سٹبل، بلیک جینز اور بلیو ہاف سلیو ٹی شرٹ میں اسکا کثرتی جسم نمایاں ہو رہا تھا ۔وہ بلاشبہ بہت ہینڈسم آور ڈیشنگ تھا بالکل اپنے باپ کی طرح۔۔!!


اسنے گاڑی سے نیچے اتر کے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کے اپنا بیگ باہر نکالا ۔گاڑی لاک کر کے وہ مڑا تو ٹیرس پہ ہلکی ہلکی روشنی میں اسے وہ نظر آئی ۔جہاں وہ ہر چیز سے بے نیاز ہاتھ میں بک تھامے ٹہل ٹہل کے شاید پڑھنے میں مشغول تھی ۔۔!!


وہ جو اپنے دھیان میں پڑھ رہی تھی نظر جیسے ہی پورچ کی طرف اٹھی دل ایک دم سے دھڑکا تھا ۔ہاں وہ بھی تو ادھر ہی دیکھ رہا تھا ۔اسنے آو دیکھا نا تاو جلدی سے مڑی اور کمرے میں چلی گئی ۔۔!!


اور وہ جو اسے دیکھنے میں مشغول تھا اسکے اندر جانے پہ ایک دم سے کوش میں آیا  ۔اسکے ایسے رویے سے اسکی پیشانی پہ بل پڑے ۔۔۔!!


"تمہارا تو کچھ کرنا ہی پڑے گا محترمہ" وہ دانت پیستے ہوئے اسکے تصور سے مخاطب ہوا پھر اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔!!


وہ لاونج میں داخل ہوا ۔اس ٹائم ادھر کوئی بھی نہیں تھا ۔اسنے اپنا بیگ ادھر ہی صوفے پہ رکھا اور خود کچن کی جانب قدم بڑھائے۔۔!!


"اسلام و علیکم پیاری مما جانی" اسکے گرد بازو حمائل کر کے ہمیشہ کی طرح اسکے سر پہ پیار کیا ۔اور وہ جو اپنے دھیاں میں کاونٹر کے سامنے کھڑی تھی اس آواز پہ چونک کے مڑی آنکھوں میں خوشی اور حیرت ایک ساتھ در آئی تھی۔۔!!


" وعلیکم اسلام مما کی جان ! آپ کب آئے" اسنے پیار سے اسکی پیشانی چومی تو وہ مسکرا دیا ۔اس وقت کوئی اسے کھڑوس یا ہٹلر نہیں کہہ سکتا تھا۔۔!!


"جب آپ بابا کے خیالوں میں گم تھیں" وہ شرارت سے مسکراہٹ دبا کے بولا مائدہ نے اسے آنکھیں دکھائیں تو وہ ہنس دیا۔۔!!


"مار کھاو گے مائر" اسنے آہستہ سے اسکے کندھے پہ چپت لگائی تو وہ شرارت سے مسکرا دیا۔۔!!


" اچھا باقی سب چھوڑیں مما آپ مجھے یہ بتائیں آپ کچن میں کیوں کام کر رہیں ہیں؟ اپنی اس بہو پلس بیٹی کو بولا کریں وہ بھی ڈرنے کے علاوہ کچھ کر لیا کرے" وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے بولتا ہوا لاونج میں لے آیا ۔۔!!


" ہاہاہا بیٹا ایسی بات نہیں ہے اسکے ایگزام چل رہے ہیں اسلئے وہ زرا آج کل بزی ہے"


"ہوں سب پتا ہے مجھے مما جانی کہ وہ کدھر بزی ہے اور کدھر نہیں" وہ اسکی گود میں سر رکھ کے ادھر ہی نیم دراز ہو گیا ۔وہ اپنے سب رشتوں کے متعلق بہت پوزیسسو تھا شاید پیرنٹس کے بعد اب کسی کو کھونے کا یارانہ خود میں نا پاتا تھا ۔۔!!


"اوہووو تو کیا پتا ہے آپکو بیٹا جانی" وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتی مسکراہٹ دبائے بولی ۔۔!!


"آپکو کیوں بتاوں ۔یہ تو سیکرٹ ہے" وہ بھی اسی انداز میں بولا ۔۔!!


" کیا اب اپنی مما سے آپ باتیں چھپاو گے ۔ابھی تو بیوی آئی بھی نہیں ہے" وہ اسکا ناک دباتی خفگی سے بولی تو وہ ہنس دیا۔۔!!


"ارے میری پیاری مما اگر آپکو یاد نہ ہو  تو میں یاد دلا دیتا ہوں کہ میری بیوی آپکی ہی بیٹی ہے ۔اور آپ اپنی بیٹی سے جیلس ہو رہی ہیں" اسنے ہنستے ہوئے اسکا ہاتھ تھام کے چوما ۔تو وہ طمانیت سے مسکرا دی ۔ان دونوں میاں بیوی کو ہی مائر اپنی اولاد سے زیادہ عزیز تھا ۔جتنا پیار وہ دونوں اس سے کرتے تھے وہ بھی ان سے اس سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا۔۔!!


" ارے بیٹا جی آپ کب آئے؟ اور مجھے کیوں نہیں بتایا" ہائم کی حیران آواز پہ دونوں نے اس طرف دیکھا جو بریگیڈئیر کے فل یونیفارم میں ملبوس مسکراتا ہوا ان سے مخاطب تھا ۔۔!!


"ہاہاہا بابا جانی مجھے یہ سمجھ نہیں آتی سب یہ ہی کیوں پوچھتے ہیں کہ میں کب آیا؟" وہ ہنستا ہوا اسکے گلے لگا ۔ہائم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی نظر اتاری ۔وہ بالکل اپنے باپ کی شبیع تھا ۔۔!!


"ہاہا اوو میرے بیٹے سے کس نے ایسا سوال پوچھ لیا؟" اسنے ہلخا سا قہقہہ لگاتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔!!


"پہلے شاہ زر چاچو ملے انہوں نے بھی یہ ہی پوچھا ، پھر مما نے اور اب آپ نے۔اچھا آپ مجھے یہ بتائیں میرے پیارے سے بابا جانی کی طبیعت کیسی ہے عمر بتا رہا تھا کل سے آپکو فیور تھا" وی سنجیدگی سے اسکا ماتھا ہاتھ سے چھاتے ہوئے بولا ۔۔!!


" بیٹا جانی میں بالکل ٹھیک ہوں اب ۔اور اس عمر میں تو اونچ نیچ ہوتی ہی رہتی ہے ۔" وہ اسکی فکرمندی پہ مسکرا دیا۔۔!!


" اس عمر سے کیا مراد ہے آپکی بابا۔آپ تو ہم سے بھی ینگ لگتے ہیں لٹرلی" وہ خفگی سے بولا ۔۔!!


" ہاہا اوکے اوکے اب آپ جلدی سے فریش ہو کے آو باقی باتیں ڈائیننگ ٹیبل پہ ہوں گی" انہوں نے پیار سے اسکی پشت تھپتھپائی تو وہ مسکرا دیا۔۔!!


♡♡♡♡♡♡ 


"مما بابا کہاں ہیں آپ؟ جلدی لاونج میں آئیں" وہ چلاتا ،بھناتا ہوا لاونج میں داخل ہوا ۔اسکے پیچھے ہی وردہ بھی مسکراتی ہوئی لاونج میں داخل ہوئی ۔۔!!


"اب کیا ہو گیا ہے ارون؟کیوں چلا رہے ہو آپ؟" مناہل جلدی سے کچن سے برآمد ہوئی اسے پتا تھا اگر وہ چلا رہا ہے تو اسکے پیچھے وردہ صاحبہ کی ہی کوئی کارستانی ہو گی ۔۔۔!!


"مما دیکھیں اس وردہ کی بچی کو ۔اسنے میری ساری چاکلیٹس کھا لی ہیں۔وہ مجھے میرے فرینڈ نے گفٹ کی تھیں" وہ کھا جانے والے انداز میں وردہ کو دیکھتا ہوا بولا۔وہ ان دونوں ٹوئینز سے عاجز آ چکی تھی ۔۔!!


"  او ہیلو تمیز سے ۔پورے بیس منٹ بڑی ہوں میں تم سے۔اور مما مجھے چاکلیٹس رائیٹنگ ٹیبل پہ پڑی ہوئیں ملییں ۔تو میں نے کھا لیں ۔اب مجھے خواب تھوڑی نا آنا تھا کہ یہ چاکلیٹس ارون کے فرینڈ نے اسے گفٹ کی  ہیں " وہ بھی آرام سے صوفے پہ بیٹھتی ہوئی پہلے ارون کو بولی پھر مناہل کو اپنا موقف گوش گزارا ۔۔!!


" وردہ آپ کو پتا بھی ہے کہ آپکا بھائی کتنے عرصے بعد گھر آیا ہے ۔اور آپ نے اسے ابھی سے تنگ کرنا شروع کر دیا ۔کب سدھرو گی آپ؟" اسنے اب وردہ کو آڑے ہاتھوں لیا ۔جبکہ ارون بڑے مزے سے سامنے صوفے پی بیٹھا دانت نکالے اسے ہی چڑا رہا تھا ۔تبھی شاہ زر لاونج میں داخل ہوا ۔وہ تقریباا ویسا ہی تھا بس بالوں میں کہیں کہیں چاندی گھل گئی تھی ۔۔!!


وردہ اسے دیکھ کے جکدی سے اٹھی اور بھاگ کے اسکے سینے سے لگی۔اسے متا تھا کہ اب اسکے بابا ہی اسے بچا سکتے ہیں۔ کیونکہ شاہ زر کی تو جان بستی تھی وردہ میں --۔!!


" بابا دیکھیں ۔آپ کی وائف اور بیٹا آپکی غیر موجودگی میں مجھ معصوم پہ کتنا ظلم کرتے ہیں " وہ اسکے سینے سے لگی اتنی مظلومانہ ایکٹنگ کرتے بولی کہ ان دونوں کے منہ کھلے کہ کھلے ہی رہ گئے جبکہ شاہ زر کے ہونٹوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ پھیل گئی۔۔!!


"کیوں بھئی ۔کس کی اتنی ہمت کی میری گڑیا پر ظلم کر ے" اسنے اسکے گرد بازو کا خصار باندھتے ان دونوں کو مصنوعی غصے سے پوچھا ۔۔!!


" بابا ظلم یہ آپکی بیٹی ہم بیچاروں پر کرتی ہے۔عمر بھائی سے بھی چاکلیٹس منگواتی رہتی ہے ۔انکو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی اور آج میری چاکلیٹس ساری کی ساری کھا لیں وہ بھی مجھ سے بنا پوچھے" ارون بےچارا اپنا مقدمہ خود لڑنے میدان میں اترا۔۔!!


" ہاں تو عمر میرے ،چاکلیٹس میری ۔تمہیں کیا مسئلہ ہے" وہی ہمیشہ کی طرح بولڈ انداز ۔مناہک کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے کہاں ان لوگوں میں پھنس گئی تھی وہ بے چارئ۔۔!!


" دیکھا شاہ - میں کہتی تھی آپ سے کہ اسے نا اتنا سر پر چڑھائیں دیکھیں کیسے باپ اور بھائی کے سامنے کھڑے ہو کے"میرا عمر میرا عمر " کر رہی ہے" وہ اب شاہ زر پہ ہی الٹ پڑی جو مسکراہٹ دبائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔!!


"بابا مجھے لگتا ہے اب ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہئیے۔مما کا ٹیمپو لوز ہو گیا نا تو ہم تو گئے کام سے" وہ شاہ زر کے کان میں سرگوشی کرتے بولی جو کہ صرف اسکے نزدیک ہی سرگوشی تھی ۔ارون بھی اب کندھے اچکائے سیچویشن انجوائے کر رہا تھا ۔وہ پاک آرمی میں لیفٹیننٹ تھا اور کافی عرصے بعد گھر آیا تھا اس لئیے اب گھر کے ماحول کو انجوائے خر رہا تھا ۔۔!!


"وردہ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تمہیں ڈاکٹری کی ڈگری کس نے دے دی ۔اللہ اللہ میں تو کبھی اتنی بے باک یا زبان دراز نا تھی جتنی میری اولاد ہے ۔پتا نہیں کون سے گناہ کا صلہ ملا ہے مجھے" 


وہ ادھر ہی صوفے پہ سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔۔!!


"مما گناہ کا نہیں بلکہ آپکی اور بابا کی محبت کا صلہ ہیں ہم" وردہ نے بےساختگی میں کہتے زبان دانتوں تلے دبا لئ ۔ارون نے بھی اسکی بات پہ موبائل جیب سے  نکال کے خود کو مصروف ظاہر کرنا چاہا تھا ۔ایک شاہ زر ہی تھا جو ویسے ہی سکون سے بیٹھا ہوا تھا۔۔!!


مناہل کا چہرہ یکلخت ہی سرخ ہوا تھا ہاں وہ آج بھی ویسی ہی تھی ۔۔!!


"شاہ دیکھ رہے ہیں آپ؟ مجال ہے کہ یہ لڑکی بولنے سے پہلے کچھ سوچ لے" وہ بےچاری روہانسی ہو گئی تھی۔۔!!


" ارے ارے کام ڈاون یار کیا ہو گیا ہے بچی ہےوہ ابھی سمجھ جائے گی" وردہ کو آنکھوں سے چپ رہنے خا اشارہ کرتا وہ اس تک آیا۔۔!!


"شاہ آپ تو بات نا ہی کریں مجھ سے ۔آپ کی ہی شہ پہ اتنا اکڑ رہی ہے " وہ غصے سے اسے دیکھ کے بولی۔۔!!


" مما آپ میرے بابا کو دھمکا نہیں سکتیں" وردہ صوفے پہ شاہ زر کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی ۔ ان باپ بیٹی کی تو جان تھی ایک دوسرے میں۔۔!!


"اور وردہ میڈم تم بھی میری مما کو دھمکا نہیں سکتی ۔" ارون مناہک کو اپنے بازو کے خصار میں لیتا ہوا سنجیدگی سے بولا تو نا چاہتے ہوئے بھی مناہل مسکرا دی۔۔!!


"رہنے دو ارون بیٹا ۔ان باپ ،بیٹی نے تو ٹھیکا لیا ہوا ہے مجھے دھمکانے کا اور کبھی کوئی کام سیدھے طریقے سے نا کرنے کا"  وہ شاہ زر اور وردہ کو ناراضگی سے دیکھتی ہوئی بولی۔اور یہ بات بھی تو سچ ہی تھی کہ وہ اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دیتے تھے۔۔!!


" ارے میری پریٹیسٹ سی مما ۔ ۔چلیں آئیں ہم کچن میں جا کے ایک مزے کی ریسیپی ٹرائی کرتے ہیں انہیں چھوڑیں۔" وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ہوا کچن میں لے گیا ۔۔!!


" بلاوجہ میری بیوی کو ناراض کر دیا۔اتنی اچھی سی تو وہ ہے  " وہ اسے دیکھتے تاسف ہوئے بولا جو مسکراہٹ دباتے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔وہ آہستہ سے اسکے پاس آئی۔۔!!


"یو نو واٹ بابا۔میں مما کو اس لئیے تنگ کرتی ہوں کیونکہ میرا دن نہیں گزرتا اگر انکی ڈانٹ نا پڑے تو ۔آپکو پتا ہے نا آئی لو ہر سو مچ" وہ اسکے کندھے پہ بازو ٹکائے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔!!


"می ٹو" وہ بھی مسکراہٹ دباتے ہوئے آہستہ سے بولا ۔۔!!


"اوووووووو" اسنے شرارت سے ہونٹ سکیڑے تو وہ بھی ہنس دیا۔۔!!


♡♡♡♡♡♡♡


رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے ۔وہ خب سے اضطرابی انداز میں کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی ۔ ہمیشہ کی طرح ملٹی کلرز کی لانگ سکرٹ پہ باٹل گرین کلر کی شرٹ پہنے ،سنہری آنکھوں پہ کالے فریم والا نظر کا چشمہ لگائے اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ وہ مسلسل ٹہل رہی تھی ۔۔!!


اگر کہا جاتا کہ وہ فیملی کی سب سے ڈرپوک اور لاڈلی میمبر تھی تو کچھ غلط نا تھا۔ہر چھوٹی موٹی بات پہ ڈرنا اور رونا اسکا معمول تھا ۔لیکن میڈم کو شوق آرمی میں جانے کا تھا ۔کیونکہ اسکے علاوہ سب ہی آرمی میں تھے اور یہ شوق تب اترا جب مائر نے اسے پورے پندرہ منٹ سومنگ پول میں سانس روکے کھڑے رہنے کا آرڈر دیا اور اس سے تو وہ ہمیشہ سے ہی ڈرتی تھی ۔اور قسمت نے ستم یہ کیا کہ چھ ماہ پہلے مائر کے کہنے پہ امل کا نکاخ مائر سے کر دیا گیا۔بہت روئی لیکن قسمت میں اس ستمگر کا ساتھ ہی لکھا گیا تھا اس لئیے کسی نے بھی اسکی بلاوجہ کی ضد کو کوئی اہمیت نا دی ۔ تب ہی عمر اور وردہ کا نکاح بھی ہوا تھا ۔۔۔!!


آج بھی وہ جب سے آیا تھا وہ تب سے ہی کمرے میں بند تھی ۔بھوک کی وہ ہمیشہ سے ہی کچی رہی تھی ۔اب اسے لگ رہا تھا کہ اگر اسنے کچھ کھایا نا تو وہ مر جائے گی ۔لیکن باہر بھی کیسے جاتی مائر کا سامنا ہونے کا ڈر تھا ۔۔!!


"کیا کروں بھوک بھی اتنی لگی ہے ۔" وہ انگلی منہ میں دبائے مسلسل ٹہلتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔۔!!


"امل بے بریو ۔ اس ٹائم تو ویسے بھی سب سو گئے ہوں گے ۔میں ایک کام کرتی ہوں۔جلدی سے جاوں گی اور کھانا کھا کے وآپس آ جاوں گی ۔ہاں یہی صحیح ہے" اسنے اپنے خیال پہ تصدیق کی مہر لگائی اور اللہ کا نام لے کے دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔جانے سے پہلے اسنے روم کی لائٹ آف کی اور نائٹ بلب آن کر دیا تا کہ کسی کو (مائر کو) پتا نا چلے۔۔!!


کوریڈور میں ہلکی سی روشنی تھی اسنے ادھر ادھر نظریں گھما کے دیکھا پھر دبے پاوں قدم اٹھاتی لاونج عبور کر کے کچن میں چلی گئی ۔کھانا وغیرہ گرم کر کے ادھر ہی ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھ کے کھایا پھر برتن سمیٹ کے اپنے کمرے کی جانب چل دی ۔اپنے کمرے میں داخل ہو کے اسنے آہستہ سے دروازہ بند کیا اور جیسے ہی مڑی کسی نے اسے بازو سے پکڑ کے زور سے کھینچا اور دیوار کے ساتھ لگایا ۔اس سے پہلے کہ وہ چیختی کسی نے اپنا بھاری ہاتھ اسکے نازک لبوں پر رکھ دیا۔اس اچانک افتاد پہ وہ پہلے تو بوکھلائی اور خود کو چھڑانے کے لئیے مزاحمت کی لیکن سب بے سود جان کر  گلاسسز کے پیچھے سنہری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ۔۔!!


" تم مجھے اسطرح نظر انداز کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟ ہاں ؟ تمہارے اس گریز کو میں کیا سمجھوں؟" یہ سخت آواز تو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی ۔ہاں یہ وہی ستمگر تو تھا۔جو ہمیشہ سے اپنی ہی کرتا آیا تھا ۔۔!!


"بولو بھی۔ اگر تم سوچتی ہو کہ تم مجھ سے بچ سکتی ہو یا مجھے نظر انداز کر کے مجھ سے پیچھا چھڑا سکتی ہو تو یہ بھول ہے تمہاری۔سمجھی؟" اسنے اسے بازووں سے پکڑ کے زور کا جھٹکا دیا اور چبا چبا کر بولا ۔وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آئی تھی ۔لمحوں میں اسکا وجود پسینہ پسینہ ہوا تھا ۔۔!!


"آآ آ آئی آیم ایم سس سوری" شدید خوف و وہشت اور آنسووں کے درمیان یہ لفظ اسکے لبوں سے ٹوٹ ٹوٹ کے ادا ہوئے تھے ۔۔!!


" ایسے کام کرتی ہی کیوں ہو کہ بعد میں سوری کرنا پڑے؟" اسنے ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد حمائل کر کے ایک جھٹکے سے اپنے قریب کیا ۔اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی ۔۔!!


" مجھے بالکل بھی گوارا نہیں کہ میری اپنی بیوی مجھے اگنور کرے ۔امید کر سکتا ہوں کہ میری بات تمہاری سمجھ میں آ گئی ہو گی۔ورنہ اور بھی بہت طریقے آتے ہیں مجھے سمجھانے کے " دائیں ہاتھ سے اسکے چہرے پہ انگلیاں چلاتا وہ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا تھا ۔اور امل وہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس ہٹلر کا یہ روپ بھی دیکھنے کو ملے گا ۔آنسو اسکی آنکھوں سے جھرنے کی صورت بہنے لگے۔۔!!


مائر مہبہوت سا نائٹ بلب کی روشنی میں اسکے معصوم اور خوبصورت سے چہرے پہ موتیوں کی طرح گرتے آنسو دیکھ رہا تھا۔ وہ جب بھی لب بھینچتی اسکا دائیں گال میں پڑتا ڈمپل واضح ہوتا جو اسے اور حسین بناتا تھا۔۔!!


"مائر کیوں ہو تم ایسے ۔محبت بھی اس سے ٹوٹ کے کرتے ہو اور تکلیف بھی اس پیاری سی لڑکی  کو ہی دیتے ہو" اسکے دل نے دہائی دی ۔۔!!


اسنے ہاتھ بڑھا کر آہستہ سے اسکا چشمہ اتارا پھر جھک کر اسکی نم آنکھوں پہ اپنے لب رکھ دئیے ۔اور امل اسکا تو یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں ۔سارا جسم برف کی مانند ٹھنڈا پر چکا تھا ۔اگر مائر نے اسے پکڑا نا ہوتا تو یقیناا وہ اب تک زمین بوس ہو چکی ہوتی ۔۔۔!!


وہ اسکے آنسو اپنے لبوں سے چن کے پیچھے ہٹا پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکے گلاسسز اس پہ رکھے ۔۔!!


" آج تو معاف کر رہا ہوں لیکن آئندہ مجھے اگنور کیا تو بہت بری طرح پیش آوں گا" آہستہ سے اسکی کمر کے گرد سے بازو ہٹا کے سخت لہجے میں تنبیہ کرتا وہ مڑا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔!!


" اسنے اپنے کانپتے وجود کے ساتھ جلدی سے دروازہ بند کیا اور بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ کے گہرا سانس لیا۔۔!!


"اففففف مما ،بابا کس مصیبت میں ڈال دیا ہے آپ لوگوں نے مجھے ۔" وہ سر ہاتھوں میں گرائے گہرے سانس بھر کر خودکلامی کے سے انداز میں بولئ۔یہ بات نہیں تھی کہ وہ اسے نا پسند کرتی تھی بات یہ تھی کہ ایک تو وہ اس سے پورے چار سال بڑا تھا دوسرا وہ بہت اکڑو تھا (امل کے مطابق) اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ نظروں سے ہی جان نکال لینے کا فن جانتا تھا اور امل تو اسکی ایک نگاہ پا کے ہی سہم جاتی تھی کجا کہ اسکا اتنا غصہ دیکھنا۔۔!!

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡


وہ اپنے کمرے میں کھڑکی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی جانے باہر کیا دیکھنے میں مصروف تھی جب اسنے پیچھے سے آہستہ سے اپنے حصار میں لیا ۔۔!!


"کیا سوچا جا رہا ہے جانِ شاہ؟ وہ بھی اکیلے اکیلے؟" اسنے سرگوشی کے سے انداز میں کہرے تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائی۔اسکے لبوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔۔!!


"میری سوچیں تو میرے شاہ سے شروع ہو کے انہی پہ ختم ہو جاتی ہیں میں اور کیا سوچوں گی" اسنے اسکے سینے سے پشت ٹکاتے ہنسی دباتے ہوئے کہا تو اسنے حیرانی سے آنکھیں نکالیں۔۔!!


"اوئے ہوئےےے آج تو ارادے نیک نہیں لگ رہے میری ڈول کے"


"افوو شاہ اب تو یی ڈول کہنا بند کر دیں ۔ایسے اچھا تھوڑی نا لگتا ہے" وہ مڑی اور اسے دیکھتے ہوئے خفگی سے بولی۔۔!!


" ہاں تم تو یہ ہی بولو گی۔تمہیں میرا پیار نظر ہی کب آتا ہے ۔ بس جان چھڑانا چاہتی ہو مجھ سے" وہ بھی خفگی سے بولتا وارڈروب کی طرف بڑھ گیا ۔اور مناہل کی تو جان فنا ہوتی تھی جب وہ اس سے دور جانے کے یا ایسی کوئی بات کرتا تھا۔۔!!


" نہیں نہیں شاہ پلیز پلیز میرا یہ مطلب نہیں تھا " وہ جلدی سے اسکا بازو پکڑ کے بولی ۔شاہ زر کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی جسے اس نے فوراا ہی سمیٹا ۔۔!!


" تو پھر کیا مطلب تھا" وہ بازو سینے پہ باندھ کے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بظاہر سنجیدگی سے بولا ۔۔۔!!


" شاہ آپ سے میری جان ہے آپ میں میری جان ہے۔آپ میری جان ہیں۔اگر آپ کی جان چھوڑ دوں گی تو میں خود جان سے جاوں گی" وہ اسکے سینے سے سر ٹکاتی نم آواز میں بولی تو اس خوبصورت اظہار پر وہ کھل کے ہنس دیا۔۔!!


" اور میری جان بالکل پاگل ہے۔۔بلکہ میری ڈول بالکل پاگل ہے" اسنے جان بوجھ کے اب کی بار ڈول بولا ۔اس دفعہ وہ کچھ نا بولی بس خفا نظریں اٹھا کے شاہ زر کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔۔!!


"بہت برے ہیں آپ شاہ" وہ اسکے سینے پہ ہتھیلی کا مکا بنا مارتے ہوئے بولئ ۔۔!!


"پر تم بہت اچھی ہو جانِ شاہ" اسنے ہنستے ہوئے اسے خود میں سمو لیا۔۔!!


♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡


" عمر ایک دفعہ پھر دیکھ لیں ۔کہیں کچھ رہ نا گیا ہو" پچھلے آدھے گھنٹے سے اسنے کوئی دس دفعہ یہ سوال پوچھا تھا۔بلیک کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک ، دوپٹہ گلی میں ڈالے ۔میسی سا جوڑا ، لائٹ میک اپ کئیے آنکھوں میں الجھن لئیے وہ اسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔!!


" لڑکی کتنی دفعہ بتاوں آپکو تو یقین کرو گی؟ آپ اب مائر یا امل سے پوچھ لو پھر شاید یقین آ جائے" وہ تنگ آ کے کہتا صوفے پہ مائر کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔آج مناہل کا برتھ ڈے تھا وہ سب اسے سرپرائز دینا چاہتے تھے اسی لئیے اسے حسن ہاوس بھیج کے خود صبح سے ےیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ڈرائنگ روم کو انہوں نے بہت ہی خوبصورتی سے سجایا تھا ۔اور کیک بیک کرنے کا کام ارون کا تھا کیونکہ وہ بیت اچھی بیکنگ کرتا تھا۔۔!!


" "بھئی تمہاری بیوی ہے تم ہی یقین دلاو۔میں باز آیا" مائر صاف کنی کترا کے کھڑا ہو گیا ۔۔!!


"چلو امل" اسنے سامنے بیٹھی امل کا ہاتھ تھاما اور باہر نکلتا چلا گیا سور پیچھے وہ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھ کے رہ گئے ۔۔۔!!


"پتا نہیں مائر بھائی اتنے کھڑوس کیوں ہیں "وہ کوفت سے آنکھیں گھما کے بولی۔۔!!


"یار مجھے یہ سمجھ مہیں آتی آپکو اس بے چارے سے مسئلہ کیا ہے" 


"ہاں تو مسئلہ کیوں نا ہو۔مجال ہے جو کبھی سیدھے منہ بات کر لیں" وہ غصے سے کہہ کر باہر جانے لگی جب اسنے کھڑے ہو کے جکدی سے اسے کلائی تھام کے روکا۔۔!!


"ارے یار جب میں ہوں اپ سے سیدھے منہ بات کرنے کے لئیے ، آپ سے پئار کرنے کے لئیے تو پھر آپکو کسی کی کیا ضرورت ہے" وہ اسکا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے مخمور لہجے میں بولا۔۔!!


" مجھے کسی کی ضرورت بھی نہیں یے ۔پر آپ دیکھیں نا مما اور ہائم ماموں بتاتے ہیں کہ سائم ماموں اور ثناء ممانی اتنے شوخ اور کول سے تھے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی یہ کس پہ چلے گئے ہیں ۔ہونہہ اکڑو نا ہوں تو" وہ اپنا سر اسکے سینے سے ٹکاتی منہ بنا خے بولی ۔۔۔!!


" ہاں یار یہ بات تو سوچنے والی ہے" وہ اسکے گرد بازو حمائل کر کے اسکے سر پر تھوڑی ٹکا کے پرسوچ انداز میں بولا۔۔!!


"استغفراللہ۔اللہ جی معاف کرئیے گا ۔توبہ توبہ" ارون کی آواز پہ عمر جلدی سے اس سے الگ ہوا جبکہ وردہ بڑے سکون سے کھڑی ہو کے اسکا ڈرامہ ملاخظہ کر رہی تھی جو آنکھوں پہ ہاتھ رکھے مسلسل توبہ توبہ کر رہا تھا۔۔۔!!


"کیا مسئلہ ہے ایسا کیا ہو گیا ہے جو تمہاری توبہ ہی نہیں رک رہی؟" وہ دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکائے ماتھے پہ تیوری چڑھائے اس سے پوچھ رہی تھی۔۔!!


" آج مجھے پکا یقین ہو گیا ہے وردہ کہ تم بگڑ گئی ہو ۔مما بالکل ٹھیک کہتی ہیں ۔توبہ توبہ ۔سارے گھر کو لوو سپوٹ بنایا ہوا ہے تم لوگوں نے تو" وہ دونوں ہاتھ کانوں لو لگا کے بولا۔۔!!


"ہاں تو تمہیں کیا مسئلہ ہے ۔تم اپنا کام کرو جا کے ۔میری مرضی میں جو بھی کروں" اسنے الٹا اسے آنکھیں دکھائیں عمر بےچارا سر پیٹ کے رہ گیا ۔پاگل لڑکی زرا کسی کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے۔۔!!


"اچھا اچھا ۔ٹھیک ہے جو جی میں آتا ہے کرو ۔تم کبھی نہیں سدھر سکتی ۔میں تو چلا " وہ نفی میں سر ہلاتا وآپس چلا گیا تو اسنے عمر کی جانب دیکھا۔۔!!


"دیکھا وردہ اسی لئیے میں کہتا ہوں آپ سے بندہ کم از کم جگہ ہی دیکھ لیتا ہے " وہ زرا غصے سے بولا ۔۔!!


"اچھاااا" وہ ابرو اچکا کے بولی تو وہ رخ پھیر گیا کتنی شرمنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اسے ارون کے سامنے۔۔!!


" وہ آگے بڑھی اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کے اسکے گال پہ اپنے لب رکھے ۔پھر پیچھے ہٹی۔۔!!


"یہ لیں جو کرنا ہے کر لیں ۔میں جو بھی کرتی ہوں ڈنکے کی چوٹ پہ کرتی ہوں " وہ سنجیدگی سے بولی اور عمر بےچارا اپنا گال مسلتا ہوا تاسف سے اسے دیکھ کے رہ گیا۔۔!!


♡♡♡♡♡♡♡


وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے اپنے ساتھ پیچھے لان میں لے آیا شام کا موسم تھا اس لئیے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح لانگ سکرٹ اور شرٹ میں ملبوس تھی ۔ہوا کی وجہ سے بال اڑ کے بار بار اسکے چہرے پہ آ رہے تھے ۔۔!!


"انٹرمیڈیٹ تو کمپلیٹ ہونے والا ہے تمہاراآگے کیا ارادہ ہے؟" اسکی آواز پہ وہ چونکی۔۔!!


" آرمی میں تو جا نہیں سکتی ۔اس کئیے سوچا ہے کہ بزنس کی فیلڈ میں ہی جاوں " وہ اپنے دھیان میں چکتی مدھم آواز میں بوکی جب وہ ایک دم سے اسکے سامنے آ کے کھڑا ہوا۔۔!!


" یو مین جاب کرو گی تم" سینے پہ بازو باندھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولا۔۔!!


" وہ وہ اگ اگر آپ بولیں گے تو کر لوں گئ جاب" وہ جکدی سے بوکی مبادا کہ شامت ہی نا آ جائے۔۔!!


"ہمم ایک بات اپنے ذہن میں بٹھا لو ۔ میں یہ جاب وغیرہ کروانے کے حق میں قطعاا نہیں ہوں ۔اور کچھ کرنے کا ارادہ ہے تو وہ بتاو" وہ اسکے سندر چہرے کو تکتا کوا سنجیدگی سے بولا۔۔!!


" اسکے علاوہ تو کچھ نہیں سوچا ابھی" وہ نظریں جھکائے بے چارگی سے بولی۔۔!!


" کوئی ضرورت بھی نہیں ہے الٹا سیدھا سوچنے کی ۔ابھی اپنی سٹڈی کمپلیٹ کرو بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی" وہ اسکے بال اسے چہرے سے ہٹاتا کان کے پیچھے کرتا ہوا سنجیدگی سے بولا۔وہ بےچارئ کیا خر سکتی تھی مخض سر ہلا کے رہ گئی۔۔!!


"صرف سر ہی نہیں ہلانا عمل بھی کرنا ہے" ایک دم ہی اسے بازو سے پکڑ کے قریب کرتا ہوا بولا۔۔!!


" او او اکے اوکے " وہ گھبرا کے جلدی سے بولی ۔مائر کو اسکے ایکسپریشنز پہ ہنسی تو بہت آئی لیکن ضبط کر گیا ۔کتنا ڈرتی تھی وہ اس سے ۔۔!!


اس نے آہستہ سے اسکی پیشانی پہ اپنی مہر محبت ثبت کی پھر اسے آزاد کر کے اندر کی طرف بڑھ گیا خبکہ وہ کافی دیر تک ادھر ہی کھڑی اسکے لمس کو اپنی پیشانی پہ محسوس کرتی رہی ۔ کتنی محبت تھی اس لمس میں ۔پتا نہیں کس بات پہ اس کے ڈمپلز واضح ہوئے تھے۔۔!!


♡♡♡♡♡♡♡♡


"افف شاہ ہٹائیں ہاتھ ایک تو اتنا تیار خروا دیا اوپر سے اپنے ہی گھر میں ایسے لے کے جا رہے ہیں جیسے پتا نہئں کیا ہو گیا ہے" اسکی جنجھلائی ہوئی آواز پہ وہ بے ساختہ ہنسا تھا۔۔!!


" شاہ کی جان بس ایک منٹ" شاہ زر اسے ڈرائنگ روم میں لے کے آیا  اور اسکی آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا ۔ڈرائنگ روم میں بالکل اندھیرا تھا اسنے اپنی آنکھیں کھولی ۔جبھی ایک دم سے تمام لائٹس آن ہوئیں اور کہیں سے ڈھئر سارے پھول اسکے اوپر گرے۔۔!!۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی